دار العلوم سونوری ایک نظر
الا بانی و مہتم : حضرت مولانا مفتی محمد روشن شاہ صاحب قاسمی ظله العالی
چی سن تاسیس: ۱۲ ؍ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ مطابق ۷ امرا گست ۱۹۹۷ء بروز اتوار ا سنگ بنیاد: بدست مبارک حضرت مولانا محمد یونس صاحب پونوی ذمہ دار جماعت تبلیغ مہاراشد ) شعبہ جات: شعبۂ اہتمام تنظیم و ترقی تعلیمات، عالمیت تحفیظ القرآن، ناظرہ مع دینیات، اسکول پہلی تا بارہویں ، MSC IT کمپیوٹر کورس کتب خانہ دارالمطالعہ، انجمن اصلاح البیان، النادي العربي ، خوش لمعلمین، مکاتب قرآنیه، دار الافتاء، دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف ، نشر و اشاعت،
نویسی مسابقات
محاسبی، دار الاقامہ، مہمان خانہ، ہاسپیٹل مطبخ ، باغبانی و غیره
700
31
49
36
65
246
239
255
517
04
17581218/-
18831018/-
1249800/-
تعداد کل طلبہ :
تعداد یتیم طلبہ : تعداد معلمین کرام :-
تعداد خادمین و ملازم :-
فارغین علماء کرام کی تعداد :-
فارغین حفاظ کرام کی تعداد:
دسویں بار ہوں پاس طلبہ کی تعداد :-
تعداد مکاتب قرآنیہ :-
تعداد اساتذہ مکاتب قرآنی:
تعداد نگران مکاتب قرآنیہ:-
سالانہ آمدانی:
سالانہ کل اخراجات:-
قرض:-
Text
تعليم واهميت تعليم
نَحْمَدُهُ ونُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ !
بیشک قرآن کریم اللہ تبارک تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو ہمارے پیغمبر نبی آخر الزماں سال پیام پر نازل کی گئی اور اب امت پر کوئی کتاب نہیں آئے گی صرف قرآن ہی پر عمل کرنا اس کو سیکھنا سکھانا امت مسلمہ پر فرض قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں “قل هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ “ یعنی کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اس آیت کریمہ سے صاف و صریح طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ نہ جاننے والا علم والے کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، نیز ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی السلام نے ارشاد فرمایا ” طَلَب العِلْمِ فَرِيضَةً عَلَى كُلِّ مُسْلِم ، علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، یہ حقیقت ہے کہ تعلیم ہی قوموں کے عروج وارتقاء کا سبب ہے اور تعلیمی دور کوترقی وفوز وفلاح کا دور کہا گیا ہے تعلیم ہی عزت و عظمت جاہ و حشمت اور سر بلندی کی بنیا د رہی ہے، جس کی تعریف قرآن کریم د میں بھی مؤثر انداز سے بیان کی گئی ہے، تعلیم سے انحراف عدم دلچسپی قوموں کی پستی پسماندگی اور زوال کا سبب رہا ہے نبی پاک سنی یا پریتم نے جہاں امت کی صلاح وفلاح اور ہدایت کے سلسلہ میں رہبری و رہنمائی فرمائی ہے وہیں پر سب سے نمایاں طور پر امت کو تعلیم کی ترغیب و اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور مختلف پہلوؤں اور پیرایوں سے سے تعلیم ہی کو اصل قرار دیا ہے کہیں اطلبُوا الْعِلْمَ وَلَوكَانَ بالصِّينِ “ ترجمہ : علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے، کہیں ” طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ “ ترجمہ: علم کسا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، کہیں الْعِلْمُ وَسِيْلَةٌ لِكُلِّ فَضِيْلَةٍ ترجمہ: علم ہر فضیلت و بزرگی کا وسیلہ اور ذریعہ
تعليم واهميت تعليم
نَحْمَدُهُ ونُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ أَمَّا بَعْدُ !
بیشک قرآن کریم اللہ تبارک تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو ہمارے پیغمبر نبی آخر الزماں سال پیام پر نازل کی گئی اور اب امت پر کوئی کتاب نہیں آئے گی صرف قرآن ہی پر عمل کرنا اس کو سیکھنا سکھانا امت مسلمہ پر فرض قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں “قل هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ “ یعنی کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اس آیت کریمہ سے صاف و صریح طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ نہ جاننے والا علم والے کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، نیز ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی السلام نے ارشاد فرمایا ” طَلَب العِلْمِ فَرِيضَةً عَلَى كُلِّ مُسْلِم ، علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، یہ حقیقت ہے کہ تعلیم ہی قوموں کے عروج وارتقاء کا سبب ہے اور تعلیمی دور کوترقی وفوز وفلاح کا دور کہا گیا ہے تعلیم ہی عزت و عظمت جاہ و حشمت اور سر بلندی کی بنیا د رہی ہے، جس کی تعریف قرآن کریم د میں بھی مؤثر انداز سے بیان کی گئی ہے، تعلیم سے انحراف عدم دلچسپی قوموں کی پستی پسماندگی اور زوال کا سبب رہا ہے نبی پاک سنی یا پریتم نے جہاں امت کی صلاح وفلاح اور ہدایت کے سلسلہ میں رہبری و رہنمائی فرمائی ہے وہیں پر سب سے نمایاں طور پر امت کو تعلیم کی ترغیب و اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور مختلف پہلوؤں اور پیرایوں سے سے تعلیم ہی کو اصل قرار دیا ہے کہیں اطلبُوا الْعِلْمَ وَلَوكَانَ بالصِّينِ “ ترجمہ : علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے، کہیں ” طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ “ ترجمہ: علم کسا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، کہیں الْعِلْمُ وَسِيْلَةٌ لِكُلِّ فَضِيْلَةٍ ترجمہ: علم ہر فضیلت و بزرگی کا وسیلہ اور ذریعہ
-66.
ہے، تو کہیں “مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً يَطْلُبُ فِيْهِ عِلْماً سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ ” ترجمہ: جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چل پڑے، اللہ تعالی اس کے لیے جنت کی راہ آسان فرمادیتے ہیں، جیسے بلیغ جوامع الکلم ارشادات سے امت کے ضمیر کو جھنجوڑا اور جہالت اور نادانی کی گندگی سے امت کو بچا کر علم کی افادیت و اہمیت پر حد درجہ زور دے کر دولت علم سے آراستہ و پیراستہ کیا اور قرآن پاک کا اعلان “عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ علم عطا کیا جو وہ جانتا نہ تھا ” الرَّحْمَنُ عَلّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانط ترجمہ: رحمن نے قرآن کی تعلیم دی ، اسی نے انسان کو پیدا کیا اور بولنا کھایا ، وَعَلَّمَ آدَمَ
الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ” ترجمہ: اللہ تعالی نے حضرت آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھا دیے، آیات ربانی نے تو علم کی عظمت و رفعت پر مہر ہی ثبت کر ڈالی جس کے بعد کسی کالم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی آج کے پرفتن پر آشوب دور میں جہاں مسلمانوں کی منظم طور پر نسل کشی اور اسلام دشمنی عالمی پیمانے پر سرگرم ہے، وہیں پر ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں فسطائی قوتیں اور غلط عناصر سر اٹھا رہے ہیں، ایسے نازک اضطراب و انتشار کے حالات میں مسلمانوں کی بقاء و تحفظ کا مسئلہ بڑا اہم ہو گیا ہے جس کا علاج مسلمانوں کے پاس صرف اور صرف تعلیم ہے ،مسلمان آگے
آئیں اور تعلیم میں دلچسپی لیں اپنے بچوں کو دینی وعصری علوم سے آراستہ کریں۔
الحمد للہ اس سلسلہ میں مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ بہت اچھا اور کلیدی کردار ادا کر اور رہے ہیں یہی اسلام اور مسلمانوں کی علامت ہیں یہی دین حنیف کے قلعے ہیں ان کی آبیاری ان کی حفاظت ان کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کرنا اس دور میں مین ثواب ہے۔
دنیا کے ممالک میں ہندوستان اپنی شان اپنی آن بان کا نرالہ ملک ہے مختلف مذاہب وملل اور مختلف ادیان کے لوگ ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر رنگ ونسل کا آدمی اس
ملک میں موجود ہے اور اپنے اپنے دین ومذہب کی ترویج وتعلیم اور تبلیغ میں مشغول و مصروف عمل ہے، ہندوستان سراسر مذہبی ملک ہے ہندوستان کا کوئی دور تعلیمی و مذہبی سرگرمیوں سے خالی نہیں رہا ہے، بہر حال دولت علم اللہ کی عظیم دولت ہے اسی دولت سے انسان مدارج ترقی طے کرتا ہے یہی قوموں وملکوں کی ترقی کا سبب ہے تعلیم سے انسان باہنر با کمال بنتا ہے اور تعلیم ہی سے اقتصادیات و معاشیات کا سدھار اور معاشرہ کو صالح بنایا جاسکتا ہے تعلیم ایک روشنی ہے جو جہالت ضلالت نادانی و گمراہی کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں ہدایت کا روشن چراغ جلاتی ہے ، انسان کو شاہراہ ترقی پر لاتی ہے جس سے انسان زندگی کے ہر شعبہ میں فوز وفلاح اور کامیابیوں سے ہمکنار
ہوتا ہے۔
مدارس و مکاتب کی اھمیت
حضرت مولاناسید ابوالحسن علی الحسنی ندوی کی نظر میں
جب مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو علماء نے شریعت و تہذیب کے قلعے قائم کر دیے ۔ آج اسلامی تہذیب ان ہی قلعوں میں پناہ گزیں ہے اور اس کی ساری طاقت و قوت ان ہی پر موقوف ہے۔ اللہ کے جواں مرد بندے دنیاوی مال و دولت سے منہ موڑ کر مدارس و مکاتب کی ٹوٹی چٹائیوں اور پھٹی بوریوں پر بیٹھ گئے اور اس وقت تک نہ اٹھے جب تک دنیا ہی سے سر اُٹھنے کا پیغام نہ آ گیا اور جب اُٹھے تو دین کے خدمت گزاروں کی ایک فوج گراں تیار کر کے اُٹھے ۔ اللہ نے ان کو حیرت انگیز کامیابیوں سے نوازا کیونکہ ان قلعوں کی بنیادوں میں اکابر کے مقدس ہاتھوں سے اخلاص کی پاکیزہ مٹی لگی ہوئی تھی ۔ اس لیے انہیں اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی ملی اور ان چہار دیواریوں سے قلیل مدت میں ہزاروں مفسر، محدث ، فقیہ ،متکلم ، مبلغ، خطیب اور مناظر تیار ہوکر نکلے۔ جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو گاؤں گاؤں اور گھر گھر پہونچایا ،
اسلام مخالف تحریکات کی سرکوبی کی ، وطن عزیز کو انگریزی سامراج کے پنجوں سے آزاد کرایا ، ناموس رسالت اور مقام صحابہ کی حفاظت کی ، مادیت پرستوں کے ذلت آمیز نعرے ” چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کا منہ توڑ جواب دیا۔ ان مدارس کا پیش رو اور پیشوا د یو بند کی سرزمین پر تعمیر ہونے
والا عربی مدرسہ تھا جو دارالعلوم دیو بند کے نام سے معروف و مشہور ہے۔
الغرض ان اداروں نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود وہ سب کچھ کر دکھایا جو ایک عظیم
اسلامی سلطنت کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر کیا جس کی نظیر پچھلی تین سوسالہ
تاریخ میں نہیں ملتی۔
مکاتب کے متعلق فرماتے ہیں ” مکاتب کو سر گرم عمل رکھیں اور زیادہ سے زیادہ ان کے
دائرہ کو وسیع کرتے رہیں ، مکاتب کے مدرسین کی ذہن سازی ضروری ہے۔ دعوتی مزاج کے بغیر تعلیم و تربیت جیسے مشکل کام کا انجام پانا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان مدرسین کے
66
ذہن کو اصلاح معاشرہ کے لئے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
دینی مدارس ومكاتب
ڈاکٹر علامہ اقبال کی نظر میں
مشہور ادیب و شاعر حکیم احمد شجاع ، اسلام کے انقلابی شاعر علامہ اقبال کے دیرینہ نیاز مند تھے، انھوں نے اپنی کتاب ” خوں بہا میں علامہ اقبال کے متعلق بھی یادداشتیں قلم بند کی ہیں اس کتاب میں انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مجلس میں ، میں نے دینی مدارس و مکاتب کا تذکرہ کیا تو علامہ اقبال نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ فرمایا کہ جب میں تمھاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی ، میں وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو ، انقلاب ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن
قوموں کے دوش بدوش کھڑا کر دے، یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ہے، ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مکتبوں میں پڑھنے دو ، اگر یہ کلاو درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ ہو گا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ ہوگا آیا ہوں اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر، الحمراء اور باب الخواتین کے سوا اسلام کے پیروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی
حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
✩✩✩
اوراق گم شده از رحیم بخش شاهین )
دار العلوم سونوری کا مختصر تعارف
اللہ اور اس کے رسول سنی لی ایم کے دین کی دعوت و تبلیغ ، اسلامی تہذیب و تمدن کی ترویج، دینی افکار و نظریات کی اشاعت ، دین اسلام کے علوم کے درس و تدریس اور علم دین کے سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت و اہمیت تمام ادوار میں مسلم رہی ہے ۔ نبی سالی یا اسلام کے دور میں بھی درس و تدریس کا عمل مستقل طور سے جاری رہا ہے۔ تاریخ اسلام میں حضور اللہ الیتیم کے مخصوص ساتھیوں ( اصحاب صفہ کا تاریخی و علمی واقعات تابناک انداز سے محفوظ ہیں ، اصحاب صفہ کا معمول تھا کہ وہ علم دین حاصل کرتے اور دوسرے بندگان خدا تک پیغام ربانی کی نورانی کرنوں کو پہنچانے کے لئے سرگرم عمل رہتے تھے۔ اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کا ہلکا سا جائزہ لیں تو تاریخ کے چلمن سے یہ حقیقت واضح ہو کر