page-header

works

دارالعلوم سونوری ایک نظر میں
٭بانی ومہتمم:- حضرت مولانامفتی محمد روشن شاہ صاحب قاسمی ؔظلہ العالی
٭سنِ تاسیس : ۱۲ ؍ربیع الثانی ۱۴۱۸؁ھ مطابق۱۷ ؍اگست ۱۹۹۷؁ء بروز اتوار
٭سنگ بنیاد:بدست مبارک حضرت مولانا محمد یونس صاحب پونوی ؒ (ذمہ دار جماعت تبلیغ مہاراشڑ )
٭شعبہ جات: شعبۂ اہتمام،تنظیم وترقی،تعلیمات،عا لمیت ،تحفیظ القرآن، ناظرہ مع دینیات،اسکول پہلی تا بارہویں ،MSC IT کمپیو ٹرکورس، کتب خانہ،دارالمطالعہ،انجمن اصلاح البیان،النادی العربی،خوش نویسی،مسابقات،تدریب المعلمین،مکاتبِ قرآنیہ ،دارالافتاء،دعوت وتبلیغ ، تصنیف وتالیف ، نشر و اشاعت ، محاسبی، دارالاقامہ، مہمان خانہ ،ہاسپیٹل،مطبخ، باغبانی وغیرہ

تعداد کل طلبہ :- ۵۵۰
٭ تعداد بیرونی طلبہ :- ۳۷۵
٭ تعداد یتیم طلبہ :- ۴۴
٭ تعداد مقامی طلبہ :- ۱۷۵
٭ تعداد معلمین کرام :- ۲۳
٭ تعداد خادمین و ملازم : – ۱۴
٭ فارغینِ حفاظ ِ کرام کی تعداد :- ۱۲۹
٭ تعداد مکاتبِ قر آنیہ :- ۳۲۰
٭ تعداد اساتذئہ مکاتب ِ قرآنیہ :- ۳۵۲
٭ تعداد نگران ِ مکاتبِ قرآنیہ :- ۵
٭ تعداد طلبہ مکاتبِ قرآنیہ :- ۱۶۰۳۲
٭ سالانہ اخراجات :- 48,00,000/-
٭ تعمیرات خرچ :- 16,70,168/-
٭ سالانہ کل اخراجات :- 64,70,168/-

تعلیم و اہمیت ِتعلیم
نَحْمَدُہٗ ونُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّابَعْدُ!
بیشک قرآن کریم اللہ تبارک تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو ہمارے پیغمبر نبی آخر الزماں ﷺ پر نازل کی گئی اور اب امّت پرکوئی کتاب نہیں آئے گی ،صرف قرآن ہی پر عمل کرنا اس کو سیکھنا سکھاناامّت مسلمہ پر فرض قرار دیا گیا ہے ،چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ یعنی کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اس آیۃ کریمہ سے صاف وصریح طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ نہ جاننے والاعلم والے کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا،نیز ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌعَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ علم دین کاحاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ،یہ حقیقت ہے کہ تعلیم ہی قوموں کے عروج وارتقاء کا سبب ہے اور تعلیمی دور کوترقی وفوزوفلاح کا دورکہا گیا ہے ،تعلیم ہی عزت وعظمت جاہ وحشمت اور سر بلندی کی بنیاد رہی ہے ،جس کی تعریف قرآن کریم میںبھی مؤثراندازسے بیان کی گئی ہے، تعلیم سے انحراف عدم دلچسپی قوموں کی پستی پسماندگی اور زوال کا سبب رہا ہے نبی ٔ پاک ﷺنے جہاں امّت کی صلاح وفلاح اور ہدایت کے سلسلہ میں رہبری و رہنمائی فرمائی ہے وہیںپر سب سے نمایا ںطور پرامّت کو تعلیم کی ترغیب و اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور مختلف پہلوؤں اور پیرایوں سے تعلیم ہی کو اصل قرار دیا ہے کہیں’’اُطْلُبُوْاالْعِلْمَ وَلَوکَانَ بِالصِّیْنِ ‘‘ترجمہ:علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے، کہیں’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ ترجمہ:علم کسا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے،کہیں’’اَلْعِلْمُ وَسِیْلَۃٌ لِکُلِّ فَضِیْلَۃٍ‘‘ترجمہ:علم ہر فضیلت وبزرگی کا وسیلہ اور ذریعہ ہے،توکہیں’’ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْماً سَھَّلَ اللّٰہُ بِہٖ طَرِیْقاً اِلیَ الْجَنَّۃِ‘‘ ترجمہ: جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چل پڑے ،اللہ تعالی اس کے لیے جنت کی راہ آسان فرمادیتے ہیں، جیسے بلیغ جوامع الکلم ارشادات سے امّت کے ضمیر کو جھنجوڑا اور جہالت اور نادانی کی گند گی سے امّت کو بچا کر علم کی افادیت واہمیت پر حد درجہ زور دے کر دولتِ علم سے آراستہ وپیراستہ کیا اور قرآن پاک کا اعلان ’’عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ‘‘ترجمہ:اللہ نے انسان کو وہ علم عطا کیا جو وہ جانتا نہ تھا’’اَلرَّحْمٰنُ عَلّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہٗ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا‘‘ ترجمہ:اللہ تعالی نے حضرت آدمؑ کو تمام چیزوں کے نام سکھادیے،آیات ربانی نے تو علم کی عظمت و رفعت پر مہر ہی ثبت کر ڈالی جس کے بعد کسی کالم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی آج کے پُر فتن پُرآشوب دور میں جہاں مسلمانوں کی منظم طور پر نسل کشی اور اسلام دشمنی عالمی پیمانے پر سرگرم ہے ،وہیں پر ہندوستان میںاسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں فسطائی قوتیں اور غلط عناصر سر اٹھارہے ہیں،ایسے نازک اضطراب وانتشارکے حالات میں مسلمانوں کی بقاء وتحفظ کا مسئلہ بڑا اہم ہوگیا ہے جس کاعلاج مسلمانوں کے پاس صرف اور صرف تعلیم ہے ، مسلمان آگے آئیں اور تعلیم میں دلچسپی لیں اپنے بچوں کو دینی وعصری علوم سے آراسۃ کریں ۔
الحمد للہ اس سلسلہ میں مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ بہت اچھا اور کلیدی کردار اداکر رہے ہیں یہی اسلام اور مسلمانوں کی علامت ہیں یہی دین حنیف کے قلعے ہیں ان کی آبیاری ان کی حفاظت ان کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کر نااس دور میں عینِ ثواب ہے۔
دنیا کے ممالک میں ہندوستان اپنی شان اپنی آن بان کا نرالہ ملک ہے مختلف مذاہب وملل اور مختلف ادیان کے لوگ ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر رنگ ونسل کا آدمی اس ملک میں موجود ہے اوراپنے اپنے دین ومذہب کی ترویج و تعلیم اورتبلیغ میں مشغول و مصروف عمل ہے، ہندوستان سراسر مذہبی ملک ہے ہندوستان کاکوئی دور تعلیمی و مذہبی سرگرمیوںسے خالی نہیں رہا ہے ،بہر حال دولتِ علم اللہ کی عظیم دولت ہے اسی دولت سے انسان مدارج ِترقی طے کرتا ہے یہی قوموںوملکوں کی ترقی کا سبب ہے تعلیم سے انسان باہنر باکمال بنتا ہے اور تعلیم ہی سے اقتصادیات ومعاشیات کا سدھار اور معاشرہ کو صالح بنایا جاسکتا ہے تعلیم ایک روشنی ہے جو جہالت ضلالت نادانی و گمراہی کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں ہدایت کا روشن چراغ جلاتی ہے ، انسان کو شاہراہ ِ ترقی پر لاتی ہے جس سے انسان زندگی کے ہر شعبہ میں فوزوفلاح اور کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔
الْبَیَانط ترجمہ:رحمن نے قرآن کی تعلیم دی ،اسی نے انسان کو پیدا کیا اور بولنا کھایا،وَعَلَّمَ آدَمَ

مدارس و مکاتب کی اہمیت
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی ند ویؒ کی نظر میں
جب مسلمانوں کا سیاسی قلــعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو علماء نے شریعت و تہذیب کے قلعے قائم کر دیے ۔آج اسلامی تہذیب ان ہی قلعوں میں پناہ گزیں ہے اور اس کی ساری طاقت و قوت ان ہی پر موقوف ہے ۔ اللہ کے جواں مرد بندے دنیاوی مال و دولت سے منہ موڑ کر مدارس و مکاتب کی ٹوٹی چٹائیوں اور پھٹی بوریوں پر بیٹھ گئے اور اس وقت تک نہ اٹھے جب تک دنیا ہی سے ــسر اُٹھنے کا پیغام نہ آگیا اور جب اُٹھے تو دین کے خدمت گزاروں کی ایک فوجِ گراں تیار کرکے اُٹھے ۔ اللہ نے ان کو حیرت انگیز کامیابیوں سے نوازاکیونکہ ان قلعوںکی بنیادوں میں اکابر کے مقدس ہاتھوں سے اخلاص کی پاکیز ہ مٹی لگی ہوئی تھی ۔ اس لیے انہیں اپنے مقاصدمیں حیرت انگیز کامیابی ملی اور ان چہار دیواریوں سے قلیل مدت میں ہزاروں مفسر، محدث ،فقیہ ،متکلم ، مبلغ، خطیب اور مناظر تیار ہوکر نکلے۔ جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو گاؤں گاؤں اور گھر گھر پہونچایا ، اسلام مخالف تحریکات کی سرکوبی کی،وطن عزیز کو انگریزی سامراج کے پنجوںسے آزاد کرایا ، ناموسِ رسالت اور مقام صحابہ کی حفاظت کی ، مادیت پرستوں کے ذلت آمیزنعرے’’ چلو تم اُدھر کو ہواہو جدھر کی ‘‘کا منہ توڑ جواب دیا ـ۔ان مدارس کا پیش رو اور پیشوا دیوبند کی سرزمین پر تعمیر ہونے والا عربی مدرسہ تھا جو ’’ دارالعلوم دیوبند ‘‘کے نام سے معروف ومشہور ہے ۔
الغرض ان اداروں نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود وہ سب کچھ کر دکھایاجو ایک عظیم اسلامی سلطنت کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر کیا جس کی نظیر پچھلی تین سو سالہ تاریخ میں نہیں ملتی ۔
مکاتب کے متعلق فرماتے ہیں’’مکاتب کو سرگرم عمل رکھیں اور زیادہ سے زیادہ ان کے دائرہ کو وسیع کرتے رہیں ،مکاتب کے مدرِسین کی ذہن سازی ضروری ہے ۔ دعوتی مزاج کے بغیر تعلیم وتربیت جیسے مشکل کام کا انجام پانا  ذہن کو اصلاح معاشر ہ کے لئے تیار کرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔
مشکل ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان مدرِسین کے

دینی مدارس ومکاتب
ڈاکٹر علامہ اقبال ؒکی نظر میں
مشہور ادیب و شاعر حکیم احمد شجاع ،اسلام کے انقلابی شاعر علامہ اقبالؒ کے دیرینہ نیاز مند تھے ، انھوں نے اپنی کتاب’’ خوں بہا ‘‘میں علامہ اقبال کے متعلق بھی یادداشتیں قلم بندکی ہیں اس کتاب میں انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مجلس میں ، میں نے دینی مدارس ومکاتب کا تذکرہ کیا تو علامہ اقبالؒ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ فرمایا کہ’’ جب میں تمھاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی ،میں وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو، انقلاب ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے ، یورپ کودیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ہے ،ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مکتبوں میں پڑھنے دو ، اگر یہ مُلاو درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھو ں سے دیکھ آیا ہوں اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوںکے اثر سے محروم ہوگئے تو با لکل اسی طرح ہوگاجس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر ، الحمراء اور باب الخواتین کے سوا اسلام کے پیروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا ۔
(اوراق گم شدہ از رحیم بخش شاہین)

دارالعلوم سونوری کا مختصر تعارف
اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دین کی دعوت وتبلیغ ،اسلامی تہذیب و تمدن کی ترویج، دینی افکار ونظریات کی اشاعت ، دین اسلام کے علوم کے درس وتدریس اور علم دین کے سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت و اہمیت تمام ادوار میںمسلم رہی ہے ۔ نبی ﷺکے دورمیں بھی درس وتدریس کا عمل مستقل طور سے جاری رہا ہے ۔ تاریخ اسلام میں حضورﷺکے مخصوص ساتھیوں ( اصحاب ِصفہ)کاتاریخی وعلمی واقعات تابناک انداز سے محفوظ ہیں ، اصحاب صفہ کا معمول تھا کہ وہ علم دین حاصل کرتے اور دوسرے بندگان خدا تک پیغام ربانی کی نورانی کرنوں کو پہنچانے کے لئے سرگرم ِ عمل رہتے تھے ۔

  اگرہم ہندوستان کی تاریخ کا ہلکا سا جائز ہ لیںتو تاریخ کے چلمن سے یہ حقیقت واضح ہوکر منظر عام پر آتی ہے کہ جس زمانے میں سرزمین ہندوستان پر انگریزوں کے قدم مضبوطی سے جم چکے تھے اور انھوں نے اپنی حکومت قائم کرلی تھی ،اور اپنے ساتھ جدید علوم اور اس سے متعلق آلات ومصنوعات اور افکار وخیالات کاایک بڑا لشکر ساتھ لائے تھے، ہندوستانی مسلمان اس وقت زخم خوردہ، مضمحل اور شکستہ خاطر تھے ۱۸۵۷ ؁ ء کے ہنگامہ میں ان کی عزت وخودداری پر ضرب لگی تھی ،دوسری طرف انہیں نئے فاتح کا رعب،نئے حالات کی دہشت ،ناکامی کی شرم اور مختلف شکوک وشبہات کاسامنا تھا ۔ ان کے روبروکئی طرح کے مشکلات ومسائل تھے جو فوری اور دور اندیشانہ حل نیز فیصلہ کُن و واضح حکمت عملی کے طلبگار تھے ۔ایسی پیچیدہ نفسیاتی کیفیت اور نازک ترین حالات میں دینی قیادت ابھر کر سامنے آئی جس کے علمبردار علمائِ دین تھے ۔ جنہوں نے دینی جذبہ ، اسلامی روح ، اسلامی زندگی کے مظاہر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے بچے کچے آثار کو محفوظ رکھنے اور اسے فروغ دے کر مضبوط کرنے کے لیے معروف دینی درسگاہ ’’ دارالعلوم دیو بند ‘‘ کا قیام  ۱۸۶۶؁ء میں عمل میں لایا اور یہاں مبلغِ دین اور داعی تیار کئے جانے کا

دنیا کے نقشے پرلازوال اثر چھوڑگئی ۔
ہندوستان کے اندر مدارس ومکاتب نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت ،اسلامی شعائر کا تحفظ، علوم ِ دین کی ترویج و اشاعت ،پیغام محمدی ﷺ کی دعوت وتبلیغ، ملت ا سلامیہ میں رائج بدعات وخرافات کا قلع قمع اور نت نئے فتنوں کا تعاقب اور سعادت مند نو نہالوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنے کا وہ قابل اعتبار اورطاقتور ذریعہ ہے ۔ عظیم الشان دینی درسگاہ ’’ دارالعلوم دیوبند ‘‘ اور اس کے نقشِ قدم پر رواں دواں مدارس میں سے ایک درسگاہ ’’دارالعلوم سو نوری‘‘ بھی ہے ۔جس کا قیام ۱۲ ؍ربیع الثانی ۱۴۱۸؁ھ مطابق
۱۷ ؍اگست ۱۹۹۷؁ء بروز اتوار ، بدستِ مبارک خلوص و للّٰہیت کے پیکر حضرت مولانا محمد یونس صاحب پونوی ؒ (ذمہ دار جماعت تبلیغ مہاراشٹر ) عمل میں آیا ۔
الحمداللہ! اپنے قیام سے لیکر آج تک مخلص حضرات کی دعاؤںاوراہل ثروت و مخیرین حضرات کے تعاون کے نتیجے میں دارالعلوم سو نوری مسلسل ترقی کی راہ پرگامزن ہے ۔ دارالعلوم نے اس قلیل مدت میں دینی تعلیم وتربیت کے اعتبار سے ترقی کے انمٹ منازل طے کئے ہیں ۔ جس سے پورا علاقہ واقف ہونے کے ساتھ ساتھ فیضیاب بھی ہورہا ہے ۔
دارالعلوم میں فی الحال۹۰۰؍طلبہ مع طعام و قیام زیرتعلیم ہیں جن کے طعام و قیام اورتمام ضروریات کا مکمل انتظام دارالعلوم کے ذمہ ہے ۔ ’’دارالعلوم سو نوری ‘‘ ست پڑا پہاڑکے قریب میں اور نہایت مفلوک الحال علاقہ میں واقع ہے ۔ دارالعلوم کی مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ تمام اخراجات توکل علی اللہ اور اہل خیر حضرات کے تعاون سے پورے ہوتے ہیں ۔
لہٰذا گذارش ہے کہ اس مستحق ادارہ کا اپنے عطیات ،زکوٰۃاور صدقات کے ذریعے تعاون فرما کر اشا عت دین کی تحریک میں شامل ہوکر ثواب جاریہ کے مستحق بنیں ۔ دارالعلوم کی تفصیلات آئندہ صفحات پر ملاخطہ فرمائیں۔

عمل جاری ہوا ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے اسلامی قلعہ سے اٹھنے والی مدارس کی فضا

’’دارالعلوم کے شب وروز‘
پرندوں کے چہچہانے اور نماز فجر کے لئے موذن کی صدائے ’’اللہ اکبر‘‘ سے ایک گھنٹہ قبل طلبہ کو بیدار کیا جاتا ہے ۔ یہ خاصان خدا اور رسول اللہ ﷺ کے مہمان طلبہ اپنی خوشی اورذوق عبادت سے سر شار ہوکرحسب طبیعت نمازتہجدکے ذریعہ دربارِ الٰہی میں سربسجود ہوتے ہیںاوربارگاہ ِالٰہی میںدعاسے فراغت کے بعد اپنے اپنے اسباق وغیرہ ذہن نشین کر نے میں مگن ہو جاتے ہیں ۔ اس موقع پر درجات حفظ سے تعلق رکھنے والےطلبہ اپنے اساتذہ کوگذشتہ سبق سناکر اگلا سبق حاصل کرلیتے ہیں ،یہ سلسلہ جماعت فجر سے پندرہ منٹ پہلے تک جاری رہتا ہے۔ بعد ازاںفجر کی نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ نماز کے فوراً بعد حضر ت مولانا مفتی محمد روشن شاہ صاحب قاسمی مدظلہم بانی جامعہ ہذا کی سر پرستی میںذکر جہری کی پرکیف مجلس ہوتی ہے جس میں شریک ہوکر تمام طلبہ ذکر جہری کرتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنے رب کی یاد اور اس کے ذکر میں منہمک ہو جا تے ہیں۔ پھرصبح کے وقت پڑھی جانے والی مسنون دعاؤں سے یہ مہمانانِ رسول دنیا وآخرت کے مشکلات سے نجات حاصل کرلیتے ہیں ،پھر سورۂ یسین کے ختم کے بعد حضرت مفتی صاحب کی رقت آمیز دعا پریہ مجلس اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ مجلس کے بعد مہمانانِ رسول ﷺ نماز اشراق کے ذریعہ بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اشراق سے فارغ ہو کر ناشتہ نوش کرتے ہیں اور اس کے بعد بشری حاجات سے فارغ ہوکر تمام طلبہ اجتماعی طور پرمحو مناجات ہوتے ہیں۔ مناجات کے بعد باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوجا تا ہے۔یہ تعلیم وتربیت مسلسل چار گھنٹے چلتی ہے جس میں دینی تعلیم کے ساتھ طلبہ متعینہ اوقات میں عصری تعلیم سے بھی روشناس ہوتےہیں ۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد طلبہ دوپہر کا کھانا تناول فرماکر قیلولہ کرتے ہیں اور نمازظہرکی ا ذان سے بیس منٹ پہلے بیدار ہو کر ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ بعد نمازِظہر دوپہر کی تعلیم کے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے جو عصر کی نماز سے پندرہ منٹ پہلے تک جاری رہتا ہے۔ ادائیگی عصر کے بعدمختصر قرأت سے دلوں کو سرشار کیا جاتا ہے،پھر فضائل اعمال کی تعلیم ہوتی ہے، اس کے بعدطلبہ دارالعلوم کے احاطے میں ہی حسب مزاج  بال،بیٹ مینٹن ا ور دیگرکھیلوں کے علاوہ مختلف جھولوں پر پرواز سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ مغرب کی نماز سے بیس منٹ قبل تمام طلبہ مسجدمیں داخل ہوکر انفرادی طور پر دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں،بعدنماز مغرب تاعشاءایک گھنٹہ تعلیمی سلسلہ جاری رہتا ہے،پھر اس کے بعد یہ حاملین دین طلبۂ کرام عشائیہ تناول فرمانے کے لیےمطبخ کا رخ کرتے ہیں ،بعد الطعام نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے مسجد دارالعلوم تشریف لاتے ہیںاور فرائض،واجبات و نوافل سے فارغ ہوکر ختم خواجگان کے وظیفہ کی تکمیل کے بعد یہ مستقبل میں امت کی فلاح و بہبودی کے محافظ پوری امتِ محمدیہ ﷺ کے لئے اجتماعی د عا کرتے ہیں۔ دعاسے فراغت کے بعددرجات عالمیت کے طلبہ تکرار ومطالعہ میں،اور درجات حفظ وناظرہ ودینیات کے طلبہ گذشتہ اسباق کے یاد کرنے میںپونہ گھنٹہ مشغول رہتے ہیں۔ اس کے بعد طلبہ اپنے اپنے بستر پر پورے دن کا محاسبہ کرتے ہوئے مسنون طریقے پر نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
نوٹ:عشاء کی تعلیم کے بعد بھی طلبہ اپنے ذوق وشوق کے اعتبار دیر رات تک تکرار ومطالعہ ،اور اسباق کی یاددہانی میں مشغول رہتے ہیں۔
فٹ
دارالعلوم سو نوری کے بنیادی اغراض ومقاصد
۱) ایسے علماء ، حفاظ اور قراء تیار کرنا جو مستند اسلامی تعلیمات کی گہرائیوں سے آشنا ہوں تاکہ علاقے میں دینی معلمین و مدرسین کی کمی کو کسی حد تک پورا کرسکیںاور مذہبی امور میں امتِ مسلمہ کے لئے معاون و مددگار بن سکیں اور با اخلاق، اعلیٰ کردار ،اور اسلامی فکر ومزاج کے حامل علماء، دانشور ملت اسلامیہ کو فراہم کرنا ۔
۲) دین اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کرکے امتِ محمدیہ ﷺ کے درمیان موجودہ مذہب ناآشنائی، دین کے نام پر بدعتیں اور خرافات پرضرب کاری لگاتے ہوئے اصلاحی کوششیں کرنا ۔
۳) مسلمان بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی غرض سے گاؤں گاؤں ،قریہ قریہ مکاتب
اسلامیہ قائم کرنا اور غلط و بے دین کاموں سے روکنے کی حتی المقدور جدوجہد کرنا ۔
۴) طلبہ میں دینی علوم کا شعور و صلاحیت پیدا کرکے دعوت دین و تبلیغ اسلام کے لئے ایسے جانباز داعی پیدا کرنا جو
۵) مکاتب ومدارس کے مدرسین اور ائمہ مساجد کے تربیتی اجتماعات کا انعقاد کرکے ان کے اندر مثبت اندازِ فکر پیداکرنا تاکہ وہ اپنے حقیقی فرض منصبی کو جان کر خالص رضائے الٰہی کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہوں۔
۶) سَت پڑا کے دامن میں آباد لاکھوں قبائلی مسلمانوں ( تڑوی پٹھان)کو ارتداد کے دھارے میں بہنے سے روکنے کے لئے جدوجہد کرنا اور ان کے درمیان موجود غیر اسلامی رسومات کاخاتمہ کرکے خالص اسلامی بنیادوںپرانہیںزندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرناتاکہ ان کی آخرت بگڑنے سے بچ جائے۔
۷) اسلاف و بزرگانِ دین کے ملفوظات کو یکجاکرکے صفحۂ قر طاس پر ثبت کرکے اسے عام انسانوں تک پہونچانے کی کوشش کرنا تاکہ بزرگوں کے ملفوظات سے عام لوگ فائدہ حاصل کرسکیں۔
۸) بیوہ اور بے سہارا خواتین کی بچیوں کی امداد کرنا تاکہ وہ حضور ﷺ کی نکاح والی سنت پر عمل کر سکیں۔
۹) غریب ونادار طلبہ کی مدد کرنا۔ان کے لئے تعلیمی وسائل وذرائع بہم پہنچانے کی کوشش کرنا۔
۱۰) غیر مسلم برادران وطن کو پیغام ر بانی سے روشناس کرانا اور بارگاہِ خداوندی میں ان کے
لئے ہدایت کی دعائیں مانگنا۔
۱۱) امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لئے کو شش کرنااور دوسروںکو بھی اتحاد امت کی ترغیب دینا ۔
۱۲) دور حاضر کے پیداشدہ مسائل کے متعلق ضروری معلومات سے طلبہ کوآگاہ کرنا ۔
پوری انسانیت کے سامنے دینِ حق کوپہنچاسکیں۔
شعبۂ اہتمام
دارالعلوم کی تعلیمی و تربیتی ،اخلاقی و تعمیری سر گر میوں، جملہ امور انتظامیہ کی دیکھ بھال ، خارجی شئون کی نگرانی ،حضرات اساتذہ و ملازمین کا عزل و نصب اس شعبہ کے مسئول کا فرض ہے، الحمدللہ اس منصب پر ۱۹۹۷ ؁ء سے بحیثیت مہتمم حضرت اقدس مولانا مفتی محمد روشن شاہ صاحب قاسمیؔ ؔمد ظلہ العالی فائز ہیں۔
شعبۂ تنظیم و ترقی
تعلیمی و تعمیری جملہ منصوبوں کی تکمیل مالیات کے بغیر مشکل ہے،لہٰذا فراہمی مالیات اور غلہ جات وغیرہ کی وصول یابی کے لئے نظم بنانا ،تکثیر چندہ کی فکر کرنا، ما ہ رمضان و دیگر اوقات میں سفراء حضرات کو روانہ کرنا اس شعبہ کی اہم ذمہ داری ہے کسی بھی ادارہ کی ترقی کے لئے یہ شعبہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
شعبۂ تعلیمات
دارالعلوم کے قیام کا اصل مقصد جس کے لئے یہ جملہ انتظاما ت کیے جاتے ہیں تعلیم وتربیت ہے جس کو دارالعلوم بحسن وخوبی انجام دے رہاہے ۔اس تعلیمی و تربیتی نظام کو دو شعبہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے۱)شعبۂ تعلیمات برائے حفظ وناظرہ ودینیات۲)شعبۂ تعلیمات برائے عالمیت
یہدارلعلوم سونوری کے اہم ترین شعبے ہیں جن کے ذمہ جملہ تعلیمی امور کی دیکھ بھال، امتحانات،مسابقات کرانا،نیز اسباق ودرجات کی تر تیب و تقسیم ،اسناد کی تیاری اورکامیاب ہونے والے طلبہ کو انعامات و ظائف کی تقسیم بھی ہیں۔
تعلیمی و تربیتی شعبہ جات
دارالعلوم نصاب اور نظام تعلیم کے لحاظ سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر ہے ، تعلیم کا معیار ہر سال آگے بڑھ رہا ہے ، تعلیم و تربیت میں اس بات کی ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ طلبہ کی پوری شخصیت کی تعمیر دینی بنیاد پر ہو ، علم پر عمل ہو ، تعلیم کے ذریعہ سیرت واخلاق میں نکھار پیدا ہو اور طالبانِ علوم نبوت صحیح معنوں میں اسلامی اخلاق کا نمونہ اور ایمانی خصوصیات کے حامل ہوں، اسلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت اور نقل و حرکت پر ہر وقت نگاہ رکھی جاتی ہے۔
شعبۂ دینیات وناظرہ
یہ شعبۂ تعلیمات کا ایک اہم شعبہ ہے جس میںحصول علم کے لیے والدین کو داغ مفارقت دے کر اپنی دنیا وآخرت کو سنوارنے اوراپنے مستقبل کوتابناک بنانے کے لیے کوشاں نونہالانِ امت جو بالکل ناخواندہ ہوتے ہیں،ان کو دین کی ابتدائی تعلیم،قاعدہ ،دینیات،ناظرہ قرآن کریم مع صحت تجوید، اردو پڑھنا لکھنا اور دین کی اہم وضروری باتوں کی تعلیم دی جاتی ہے، جس کادو سالہ ایک جامع و مفید نصاب ہے۔اس نصاب کی تکمیل کے بعد شعبۂ حفظ یا عا لمیت میں داخلہ دیاجاتا ہے ۔
شعبۂ تحفیظ القرآن
اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر عظیم انعام ہے کہ اس نے اپنا مقدس کلام دنیا میں نازل فرمایا اور ساتھ ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود لے لی ورنہ انسان کے بس کا کب تھا کہ اس کی حفاظت کرتا چنانچہ ارشاد فرمایا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَوَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ( سورئہ حجر آیت : ۹)’’ ہم نے ہی قرآن کواتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘
پس جب اس کی حمایت اور حفاظت میں یہ کتاب ہے پھر کس ہاتھ میں یہ قدرت ہے کہ اس میں ذرا بھی تغیر کرسکے ۔ حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے انتظام کا ذریعہ اپنے بندوں ہی کو بنایا جو اس پر ایمان رکھتے ہیں گویا کہ یہ لوگ خدا کی اس عظیم امانت کی حفاظت کے لئے خدائی لشکر ہیں اسی طرح اس کے خدمت گزاروں کو بھی حق تعالیٰ نے خصوصی شرف بخشا ہے ، اسی جماعت میں سے ایک جماعت حفاظ کرام کی ہے جن کو اپنے کلام پاک کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے ۔
دارالعلوم نے انہیں حفاظ کرام کی فوج گراں تیارکرنے کے لیے شعبۂ تحفیظ القرآن قائم کیا ہے جس کو آٹھ درجات میں تقسیم کیا گیا ہے اوراس کی تعلیم وتربیت کی نگرانی کے
لیےآٹھ ماہر فن ،لائق اور تجربہ کار اساتذۂ کرام کی خدمات حاصل ہے ،سے اپنی ترقی کے لیے شب وروز محنت میں مصروف ہیں اور طلبہ میں مزید شوق بڑھانے کے لیے جو بھی طالب علم پارے کی تکمیل جلد کرتا ہے اس کو انعام بھی دیا جاتا ہے ،اس شعبہ میں مکمل تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کی پختگی کی فکر کی جاتی ہیں۔اس تعلیمی نظام میں مزید نکھار لانے کے لئے ہر طالب علم کے پاس یومیہ کیفیت اسباق کی کاپی ہوتی ہے جس میں روزانہ کی
 تعلیمی کیفیت کا اندراج اور تعلیمی جائزہ کاپی کے ذریعہ امتحان ہوتا ہے ۔

جس میںمکمل پارے کی تعلیمی کیفیت کا اندراج ہوتا رہتا ہے اور پارے کے ختم پر اس یاد کردہ پارے کا امتحان ہو کر اگر اس پارے کی تعلیمی کیفیت کا معیار بہتر رہا تو آگے ترقی دی جاتی ہے ورنہ ترقی سابقہ کیفیت کے بہترہونے تک موقوف کردی جاتی ہے تاکہ اس طرز عمل سے تعلیم اور تربیت میں مزید نکھار پیدا ہو۔

شعبۂ عا لمیت
یہ آٹھ سالہ نصاب تعلیم ہے، جس میں اردو،فارسی کی ابتدائی تعلیم،اردو ادب،فارسی ادب، عربی ادب،نحو وصرف،علم معانی،بدیع، بیان،منطق،کے علاوہ بالخصوص تجوید وقرات بروایت حفص،ترجمہ قرآن،تفسیر قرآن،اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث،فقہ ،اصول فقہ سے متعلق متعدد کتابیں پڑھائی جاتی ہیں،جس کا بنیادی مقصد طلبہ کو قرآن و حدیث نبویﷺ کی نورانی بصیرت و فہم حاصل ہو اور وہ اچھے عالم دین بن کر زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کو فوقیت دیں اور قوم و ملت کی صحیح رہنمائی کر سکیں ۔ شعبہ عالمیت میںام المدارس دارالعلوم دیوبند کا نصاب تعلیم داخل نصاب ہے۔
درجات عالمیت کے طلبہ میں مزیدنکھار لانے کے لیےان کے ششماہی وسالانہ امتحانات کے اوسط کے مطابق ہفتہ واری وظیفہ تقسیم کیا جاتا ہے۔
سلاسل داخلی مسابقات
مسابقات کاا نعقاد ایک ایسا خوبصورت طریقہ ہے جس کے ذریعہ طالب علم اپنے آپ کو سب سے برتر وفائق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔طلبہ میں علمی ذوق و شوق میں اضافہ کرتا ہے،نیز ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر کریں اور ان کی جدو جہد میں تیزی آئے اس مقصد کے پیشِ نظر دارالعلوم سونوری سالانہ آٹھ داخلی مسابقات کا انعقادکر تا ہے ،(۱) مسابقۃ القرآن الکریم (۲)مسابقۂ نعت وتقاریر(۳)مسابقہ برائےعلم نحو(۴)مسابقہ برائے علم صرف (۵) مسابقہ برائے حفظ حدیث(۶)مسابقہ برائے فقہ(۷)مسابقۃ الخطابۃ فی اللغۃ العربیہ (۸) مسابقہ برائے نورانی قاعدہ(۹)مسابقہ برائے خطبات جمعہ وعیدین
۱)مسابقۃ القرآن الکریم :یہ مسابقہ درجات حفظ کے ان طلبۂ کرام کے درمیان منعقد کیا جاتا ہے جو سالِ رواں تکمیل حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز ہوئے ہیں،اس مسابقہ کو تین نشستوں پر تقسیم کیا گیا ہے ،نشست اول پارہ ۱؍تا۱۰؍مکمل،نشست دوم پارہ ۱۱؍تا ۲۰ مکمل،نشست سوم پارہ ۱؍تا ۳۰ مکمل
۲)مسابقۂ نعت وتقاریر: انجمن اصلاح البیان میںپورے سال طلبہ جو اپنے خطابی وتقریری صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں یہ مسابقہ اس کا مظاہرہ ہوتاہے، اس مسابقہ کو تین نشستوں پر تقسیم کیا گیاہے،نشست اول:جس میں شعبوںکی بنیاد پرہی انتخاب کا عمل ہوتا ہےجس میں ہر شعبہ سے ہفتۂ اولی وثانیہ کی بنیاد پرتین تین طلبہ کا انتخاب ہوتا ہے،پھر وہ طلبہ دوسری نشست میں شرکت کے مجاز ہوتے ہیں ،دوسری نشست میں حکمین کی حیثیت سے حضرات اساتذہ دارالعلوم ہذا ہوتے ہیں،پھر ان میں سے منتخب طلبہ تیسری نشست میں شریک ہوتے ہیں۔جس میں حضرات حکمین باہر سے تشریف لاتے ہیں،تیسری نشست کے شرکاء اور ممتاز نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کوحسب درجہ بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
سلاسل داخلی مسابقات
مسابقات کاا نعقاد ایک ایسا خوبصورت طریقہ ہے جس کے ذریعہ طالب علم اپنے آپ کو سب سے برتر وفائق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔طلبہ میں علمی ذوق و شوق میں اضافہ کرتا ہے،نیز ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر کریں اور ان کی جدو جہد میں تیزی آئے اس مقصد کے پیشِ نظر دارالعلوم سونوری سالانہ آٹھ داخلی مسابقات کا انعقادکر تا ہے ،(۱) مسابقۃ القرآن الکریم (۲)مسابقۂ نعت وتقاریر(۳)مسابقہ برائےعلم نحو(۴)مسابقہ برائے علم صرف (۵) مسابقہ برائے حفظ حدیث(۶)مسابقہ برائے فقہ(۷)مسابقۃ الخطابۃ فی اللغۃ العربیہ (۸) مسابقہ برائے نورانی قاعدہ(۹)مسابقہ برائے خطبات جمعہ وعیدین
۱)مسابقۃ القرآن الکریم :یہ مسابقہ درجات حفظ کے ان طلبۂ کرام کے درمیان منعقد کیا جاتا ہے جو سالِ رواں تکمیل حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز ہوئے ہیں،اس مسابقہ کو تین نشستوں پر تقسیم کیا گیا ہے ،نشست اول پارہ ۱؍تا۱۰؍مکمل،نشست دوم پارہ ۱۱؍تا ۲۰ مکمل،نشست سوم پارہ ۱؍تا ۳۰ مکمل
۲)مسابقۂ نعت وتقاریر: انجمن اصلاح البیان میںپورے سال طلبہ جو اپنے خطابی وتقریری صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں یہ مسابقہ اس کا مظاہرہ ہوتاہے، اس مسابقہ کو تین نشستوں پر تقسیم کیا گیاہے،نشست اول:جس میں شعبوںکی بنیاد پرہی انتخاب کا عمل ہوتا ہےجس میں ہر شعبہ سے ہفتۂ اولی وثانیہ کی بنیاد پرتین تین طلبہ کا انتخاب ہوتا ہے،پھر وہ طلبہ دوسری نشست میں شرکت کے مجاز ہوتے ہیں ،دوسری نشست میں حکمین کی حیثیت سے حضرات اساتذہ دارالعلوم ہذا ہوتے ہیں،پھر ان میں سے منتخب طلبہ تیسری نشست میں شریک ہوتے ہیں۔جس میں حضرات حکمین باہر سے تشریف لاتے ہیں،تیسری نشست کے شرکاء اور ممتاز نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کوحسب درجہ بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
،۴)مسابقہ برائے نحوو صرف:عربی زبان کو سیکھنے کے لیے بنیادی چیز ’’نحووصرف‘‘ ہے،جامعہ ہذا میں فن نحووصرف کا بھی مسابقہ رکھا جاتا ہے تاکہ طلبہ عربیت کے اعتبار سے ممتاز ہوں۔
(۵)مسابقہ برائے حفظ حدیث:حضرت نبی پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص چالیس احادیث حفظ کرلیں قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالی قیامت کے دن علماء وفقہاء کے زمرے میں سے اٹھائے گے،انہیں فضائل کو مدنظر رکھتے جامعہ ہذا میں عربی چہارم تا دورۂ حدیث ،حفظ حدیث کا مسابقہ منعقد کیا جاتا ہے۔
(۶)مسابقہ برائے فقہ: اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کامعاملہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ بوجھ نصیب فرماتے ہیں،طلبہ میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے اور مسائل کومستحضر رکھنے کے لیے جامعہ ہذا میں مسابقۂ فقہ کا کو منعقد کیا جاتا ہے۔
(۷)مسابقۃ الخطابۃ فی اللغۃ العربیہ:عربی انجمن النادی العربی میں عربی تقاریر کی مشق کرائی جاتی ہے،اسی کے مظاہرہ کے لیے اس مسابقہ کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔
(۷)مسابقہ برائے نورانی قاعدہ:دارالعلوم کے نصاب تعلیم کے مطابق۴؍ ماہ میں ہی نورانی قاعدہ کی تکمیل ہوجاتی ہے،طلبہ کی محنت میں مزید اضافہ اور نکھارلانے کے لیے یہ مسابقہ منعقد کیا جاتا ہے۔
(۹)مسابقہ برائے خطبات جمعہ وعیدین:خطبات جمعہ وعیدین ہراس شخص کی ضرورت ہے جو منصب امامت پر فائز ہو،جامعہ ہذا میں طلبہ کو خطبات جمعہ وعیدین یاد کرادیے جاتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آسکے۔
Back to top of page
ENGLISH